کئ صدیوں پہلے کا ذکر ہے کہ موجودہ ملک افغانستان کے شمال میں ایک عظیم سلطنت واقع تھی. اس سلطنت میں ایک بہت بڑا جنگل تھا جس میں انواع و اقسام کے درخت اور جانور پاۓ جاتے تھے. ایک دن ایک شخص اس جنگل میں مہم جوئی کیلئے نکلا. جب کئی دن گزر گئے اور وہ واپس نہ آیا تو اس کے گھر والوں کو اس کی فکر ہوئی . اس شخص کے بھائی اور ہمساۓ اس کا کھوج لگانے جنگل میں اس کے پیچھے گۓ لیکن وہ بھی واپس نہ آۓ. اس گمشدہ شخص کی بیوی اور دیگر اہل و عیال ان حیرت انگیز گمشدگیوں کی خبر لے کر بادشاہ وقت کے دربار میں حاضر ہوئے اور التجا کی کہ ان افراد کی بازیابی کیلئے مناسب اقدامات کئے جایئں . بادشاہ، بہت ہی رحمدل اور بہادر تھا. اس نے اسی وقت اپنے سپاہ سالار کو حکم دیا کے ایک فوجی دستہ جنگل میں ان گمشدہ افراد کا پتا لگانے کیلئے روانہ کیا جاۓ . وہ دن اور آج کا دن' اس دستے میں شامل کسی فوجی کو دوبارہ نہیں دیکھا گیا. ان فوجیوں کی گمشدگی سے پوری سلطنت میں جنگل کے بارے میں خوف و ہراس جنگل کی آگ کی طرح پھیل گیا اور جنگل کے بارے میں طرح طرح کی خوفناک کہانیوں نے لوگوں کے ذہنوں میں گھر کر لیا. کچھ کہتے کہ جنگل میں خوفناک آدمخور پاۓ جاتے ہیں تو کچھ کے مطابق یہ گمشدگیاں جنگل میں موجود بدروحوں کی کارستانی ہیں. جو کچھ زیادہ عقل و شعور رکھتے تھے انہوں نے اس سب کی محض جنگلی جانوروں یا کسی قدرتی حادثے سے وضاحت کرنے کی کوشش کی. کچھ شرارتی لوگوں نے یہاں تک مشہور کر دیا کے اصل میں جنگل میں خوبصورت پریوں نے بسیرا کر لیا ہے اور یہ تمام افراد ان کی اداؤں کی تاب نہ لاتے ہوئے وہیں کے ہو رہے ہیں - خیر' ان تمام تر کہانیوں کا اثر یہ ہوا کے بہت جلد ہر کسی نے جنگل میں جانا چھوڑھ دیا. بادشاہ نے بھی عوام کی حفاظت کی خاطر ایسے قوانین وضح کیے کہ جن کے مطابق کسی کو بھی جنگل کے قریب جانے ' وہاں گھر بنانے' لکڑیاں کاٹنے وغیرہ کی اجازت نہ تھی. بادشاہ اور اس کے وزیروں نے جنگل سے متصل حصے میں ایک دفاعی دیوار بھی تعمیر کرا دی تا کہ امن عامہ میں فساد نہ برپا ہو. وقت گزرتا گیا اور لوگوں کے ذہنوں میں جنگل کے بارے میں خوف بڑھتا گیا. اب لوگ جنگل کا ذکر آنے پر بھی آیت الکرسی اور استغفار کا ورد شروع کر دیتے. ڈر کا یہ عالم تھا کہ لوگوں نے جنگل کا نام تک لینا تک چھوڑھ دیا اور اس سلطنت کے پاۓ کے زباندانوں نے جنگل کیلئے نئے الفاظ مرتب کرنا شروع کر دئے جیسے دارالموت' دروازہ وحشت ' عذاب سنگیں' مسکن مجنوں ' مقام عبرت ' وغیرہ وغیرہ .
ایک دن اس سلطنت کے دارلحکومت میں ایک نوجوان نے قدم رکھا. اس شخص کے بال انتہا کے چمکنے والے سنہری تھے. لوگ اس کے بالوں کی خوبصورتی سے متاثر ہو کر اس کے گرد اکٹھے ہو گۓ. کچھ لوگوں نے تو یہ سمجھ کر کہ اس کے بال بال نہیں بلکہ سونے کے تار ہیں ' ان کو نوچنے کی بھی کوشش کی. اس شخص کے بالوں کی خوبصورتی کی خبر ملکہ وقت تک پہنچی تو اس نے اسے شاہی دربار میں بلا بھیجا. جب وہ شخص دربار میں حاضر ہوا تو بادشاہ 'ملکہ اور تمام درباری نہ صرف اس کے بالوں سے متاثر ہوئے بلکہ اس کے چال چلن'آزاد رویے' خود اعتمادی سے بھرپور طرز گفتار' آنکھوں کی بیباکی اوررعب نے بھی ان کے دلوں میں گھر کر لیا. ملکہ کے دل میں تو فوراً اپنی شہزادی کے مستقبل کے خواب تابناک ہوتے محسوس ہوئے. بادشاہ سلامت کو بھی اپنی مملکت کیلئے ایک عظیم وزیراعظم دکھ رہا تھا کہ اچانک اس شخص نے بادشاہ کو مخاطب کر کے یہ سوال کیا "شہنشاہ عالی مرتبت' میں آپ کے احساسات کی قدر کرتا ہوں ؛ لیکن اس سے پہلے کے آپ میری بابت کوئی فیصلہ سنا دیں ' مجھے اپنے آپ کو ثابت کرنے کا موقع دیں!". بادشاہ اس دلچسپ شخص کے اس اسرار پر دمبخود رہ گیا اور بولا "بتاؤ! کس طرح کا موقع چاہتے ہو !". اس پر اس شخص نے بادشاہ سے عرض کی "آپ کی عظیم سلطنت میں کوئی ایسا کام جس کو آپ نہ ممکن سمجھتے ہوں' میں وہ کرنا چاہوں گا!". پورا دربار اس شخص کے اس بیان پر عش عش کر اٹھا. موجودہ سپاہ سالار 'جس کو اپنے فوجیوں کی گمشدگی کا دکھ بھی تھا اور اس نو آمد شخص کی شاہی عزت افزائی سے حسد بھی' اپنی نشست سے اٹھا اور بادشاہ کے کان میں جا کر کچھ کہا. بادشاہ سلامت نے تائید میں سر ہلایا اور یوں گویا ہوئے "کیا تم نے واقعی ناممکن کو ممکن کر دکھانے کی ٹھان لی ہے ؟" اس پر اس شخص نے اپنا خنجر نکالا اور اپنے ہاتھ پر اس طرح پھیرا کے اس میں سے خون نکل آیا . بادشاہ نے جب ہمت کی یہ شدت دیکھی تو اسے جنگل کے بارے میں بتایا اور ساتھ ہی وہاں کے خطرات سے بھی خبردار کیا. دربار میں موجود لوگ آنکھیں بند کر اونچا اونچا معوذتین کا ورد شروع ہو گۓ. یہ سب سن کر وہ شخص صرف مسکرایا اور بولا "یہی تو میں چاہتا تھا! اور اب آپ سے صرف اجازت چاہوں گا!". سپاہ سالار نے اپنے کچھ فوجی اس کے ساتھ روانہ کرنے کی پیشکش کی لیکن اس شخص نے اس کے پیچھے موجود سازش کو بھانپتے ہوئے اس پیشکش کو ایک پرتپاک شکرئیے کے ساتھ واپس کر دیا. اسی شام وہ شخص اپنی تلوار در میان کئے اپنے کتے کے ھمراہ جنگل کی سمت روانہ ہو گیا.
دن ہفتوں اور ہفتے مہینوں میں بدلتے چلے گۓ لیکن اس نوجوان کی واپسی کی کوئی صورت نہ ھونے پائی. لوگ بھی رفتہ رفتہ اس نوجوان کا ذکر اس کے سنہری بالوں کی بجاے اس کی بیوقوفی کی وجہ سے ہی کرتے نظرآۓ- لوگوں میں طرح طرح کی چہ مہ گوئیاں شروع ہو گیئں. سپاہ سالار اور وزیراعظم نے تو یہاں تک کہ دیا کہ "دیکھئے جی! جب ہمارے بہادر سورما یہ نہ کر پاۓ تو یہ کل کا چھوکرا یہ کیسے کر سکتا ہے' مر مرا گیا ہو گا کہیں!". اہل دانش بھی ان عورتوں کی طرح شروع ہو گئے جو کسی کا رشتہ ٹوٹنے پر جھوٹا اظھار افسوس کچھ ایسے کرتی ہیں کہ "دیکھا بہن! ہمارا تو پہلے ہی خیال یہ تھا کہ یہ رشتہ آپ کے معیار کا نہیں' بس آپ کی دلجوئی کیلئے آپ کو کبھی نہ بتایا!".
دوسری طرف وہ نوجوان گھنے جنگل میں اپنی تلوار سے راستہ بناتے بناتے آخر کار ایک تالاب کے قریب پہنچا. سخت پیاس کے مارے اس کا کتا اس سے آگے بھاگ کر تالاب کے کنارے جا پہنچا. جوں ہی کتے نے اپنا منہ تالاب کے قریب کیا' تالاب میں سے ایک بڑا سا ہاتھ نکلا اور کتے کو پکڑ کر دوبارہ سطح آب سے نیچے غائب ہو گیا. نوجوان نے یہ سارا منظر دیکھا اور گھبرانے کی بجاۓ خود کلامی کے انداز میں کہنے لگا "اچھا! تو یہ ہے وہ جگہ!". اس کے پاس اپنے پانی پینے والے مٹی کے پیالے کے علاوہ تو کچھ تھا نہیں سو وہ اسی سے اس تالاب کو خالی کرنا شروع ہو گیا.
کئی دفعہ اسے یہ لگتا کے جیسے تالاب میں کوئی ہے. لیکن اس پر کسی چیز نے حملہ نہ کیا. سو وہ اپنے اسی پیالے سے تالاب کو خالی کرتا رہا. اس میں کئی مہینے صرف ہو گۓ. آخر کار ' وہ اس تالاب کی تہ تک پہنچ گیا اور وہاں اس کو کیچڑ سے اٹا ایک آدمی نظر آیا جس کا پورا جسم سرخ سنہری بالوں سے ڈھکا ہوا تھا. اس نے اس آدمی کو پہلے تو رسیوں سے جکڑا اور پھر تالاب سے بھر نکال کر نہلایا. اس کے بعد وہ اسے اپنی تلوار کی نوک سے ہانکتا واپس سلطنت کے دارلحکومت کی جانب روانہ ہوا. اس نے اس آدمی کو "احمررخ" کا نام دیا. اس نوجوان کی واپس آمد پر پورا شہر اس کو اور اس جنگلی بلا کو دیکھنے امڈ آیا جس نے ان سب کو پوری زندگی خوف میں مبتلا رکھا تھا. نوجوان کی واپسی پر اس کے ناقدین بغلیں جھانکنے لگے. اہل دانش اپنی بات سے یوں پھرے جیسے وہ پہلے پھرے تھے اور وزیراعظم اور سپاہ سالار کسی کو دکھائی نہ دئے. احمربدن کو ایک پنجرے میں بند کر کے شاہی محل لایا گیا. شہزادی کو بہترین لباس زیب تن کرنے کا حکم دے کر ملکہ اور بادشاہ سلامت خود اس نوجوان کے استقبال کیلئے محل کے دروازے تک آۓ. لیکن وہ پراسرار نوجوان کہیں راستے میں چپکے سے غائب ہو گیا اور کبھی نے دوبارہ اس کی شکل نہ دیکھی. خیر احمررخ کو بادشاہ کے محل کے صحن میں رکھا گیا اور لوگ اسے دیکھنے آتے' اس کو برا بھلا کہتے اور اس پرسرار نوجوان کے بہادری کے قصے ایک دوجے کو سناتے نہ تھکتے. کچھ لوگوں نے تو اپنے بچوں کے نام بھی اس پرسرار نوجوان کی صفات پر رکھنا شروع کر دیے جیسے أشقر' درخشندہ' زریں' ہفت بہادر' خوف شکن وغیرہ.
بادشاہ سلامت کا ایک چھوٹا بیٹا بھی تھا جس کے ابھی کھیلنے کودنے کے دن تھے. وہ اپنے والدین کا سب سے فرمانبردار اور ہونہار سپوت تھا. صبح سویرے مدرسے جاتا اور خوب علم حاصل کرتا اور پھر شام میں اپنی سنہری گیند کے ساتھ محل کے سبزہ زار میں کھیلتا رہتا. محل کا سبزہ زار احمررخ کے قیدخانے کے قریب تھا. ملکہ نے اپنے بیٹے کو احمررخ کے پنجرے سے دور رہنے کی سختی سے تاکید کی ہوئی تھی . اک دو دفعہ احمررخ بے اسے بلایا لیکن چھوٹے شہزادے نے اپنی تربیت اور ماں کی تاکید کو نہ بھلایا. ایک دن کھیلتے کھلتے شہزادے کی گیند پنجرے کی سلاخوں سے ہوتی ہی اندر چلی گئی. شہزادے کا اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا نیچے رہ گیا. کیونکہ اس کو وہ گیند بہت عزیز تھی سو اس نے ایک گہرا سانس لیا' اپنی ہمت خود بڑھائی اور احمررخ کے قریب پہنچا "احمررخ! براہ کرم میری گیند واپس کر دیجئے" اس نے لجاجت سے بھرپور لہجے میں احمررخ سے گزارش کی. یہ لہجہ اس نے اپنے مدرسہ میں اپنے اساتذہ اور اپنے باپ کے دربار میں نوکر شاہی سے سیکھا تھا اور اسے امید تھی کے اسے اس کی گیند واپس مل جاۓ گی. لیکن احمررخ کا ایسا کوئی ارادہ نہ تھا "گیںد تو تمھیں تب ہی واپس ملےگی اگر تم مجھے آزاد کرو گے اور خبردار جو کسی کو کچھ بتایا ورنہ میں یہ گیند توڑ دوں گا!". شہزادہ یہ تو جانتا تھا کہ اسے ایسا نہیں کرنا چاہئے. پتا نہیں احمررخ باہر نکل کر کیا کرے. شہزادے کو زیادہ ڈر اپنی والدہ' بادشاہ' اساتذہ اور بہن بھائیوں کو ناراض کرنے کا تھا جنہوں نے اسے احمررخ سے دور رہنے کا کہا تھا. لیکن اسے اپنی گیند کے ٹوٹنے کا ڈر اس سے بھی زیادہ تھا. "لیکن مجھے کیا پتا کے تمھیں کیسے آزاد کرنا ہے! دروازے پر تو اتنا بڑا تالا لگا ہے اور میرے پاس تو اسکی چابی بھی نہیں!" شہزادے نے احمررخ کو بتایا. احمررخ مسکرایا اور بولا "چابی تو تمھیں اپنی ملکہ کے سرہانے کے نیچے سے مل جاۓ گی سو جلدی کرو!".شام ہونے پر شہزادہ ڈرتے ڈرتے ملکہ کی خوابگاہ میں پہنچا اور وہاں اسے چابی مل گئی. چابی چرانے کے بعد اس نے احمررخ کے پنجرے کا دروازہ کھول دیا. احمررخ نے شہزادے کو اس کی سنہری گیند واپس کی اور خود اندھیرے میں جنگل کی راہ لی.
شہزادے کو اب اپنی غلطی کا احساس ہوا اور وہ زار و قطار رونے لگا. اس پر یہ حقیقت افشاں ھوئی کہ اس نے تو ایک نہ قابل معافی جرم کا ارتکاب کر دیا ہے جس کی پاداش میں اس کے ماں باپ اس کو کبھی پہلے کی طرح نہیں چاہیں گے اور اس صورت حال میں اس کا محل میں رہنا بےسود ہو گا اور وہ سنہری گیند بھی اس کیلئے بے معانی تھی کیوںکہ وہ محل کے سبزہ زار میں تو مزید کھیل ہی نہیں سکتا تھا. اس نے پیچھے سے احمررخ کو آواز دی "احمررخ! احمررخ! میری مدد کرو!!". احمررخ واپس شہزادے کے پاس آیا اور اسے اپنے کندھوں پر سوار کر کے دوبارہ جنگل کی طرف چل پڑا. شہزادہ اپنی زندگی اور تمام تر آسائشیں چھن جانے کے خوف سے ابھی بھی زار و قطار رو رہا تھا. "شہزادے! پریشان نہ ہو! میں تمھیں ایسی ایسی چیزیں دکھاؤں گا جو تم نے آج تک نہ دیکھی اور نہ سنی ہونگی! لیکن اب اس کے بعد تم واپس اپنے گھر کبھی نہ جا سکو گے!".
وہ چھپتے چھپاتے جنگل میں ایک دریا کے قریب پہنچے جس کا پانی بالکل صاف شفاف تھا' اتنا نرم سیر کے اقبال نے اس کے بارے میں کہا تھا "تھی نظر حیراں کہ یہ دریا ہے یا تصویر آب!". احمررخ نے گھاس پھونش جمح کر کے ایک چھوٹی سی جھونپڑی اور ایک بستر بنایا بلکل دریا کنارے اور کچھ لکڑیاں اکھٹی کر کے آگ جلائی تا کہ اس کی روشنی سے جنگلی جانور قریب نہ آئیں. "مجھے ایک اھم کام سے جانا ہے! شہزادے تم اس دریا کی حفاظت کرنا! دیکھنا اس میں کچھ گرنے نہ پاۓ!" احمررخ یہ کر چلتا بنا. شہزادہ آرام سے بسٹر میں سو گیا. جب صبح ہوئی تو ابھی تک نہ احمررخ کا نام تھا نہ نشان! شہزادہ دل بہلانے کیلئے دریا کنارے آیا. اسے پانی میں سنہری مچھلیاں اور دیگر ضیاءی مخلوق نظر آئ. اچانک اسے احساس ہوا کے اس کی انگلی میں شدید درد ہے شائد احمررخ کے پنجرے کا دروازہ کھولتے ہوئے اسے کچھ لگ گیا تھا. کچھ سکون کی خاطر اس نے سب کچھ بھول کر اپنی انگلی دریا کے پانی میں ڈبو دی. انگلی جونہی پانی سے جڑی' اس کی تمام تکلیف دور ہو گئی. لیکن جب شہزادے نے اپنی انگلی واپس نکالی تو وہ سونے کی طرح چمک رہی رہی . اسے تب احمررخ کی کی گئی تاکید یاد ای اور اس نے رگڑ رگڑ کر سنہری رنگ اتارنے کی کوشش کی لیکن بے سود! رات گئے احمررخ واپس آیا "شہزادے! کیسا گیا آپ کا دن؟". شہزادے نے اپنی انگلی چھپانے کی کوشش کی لیکن اس سے نکلنے والی سنہری شعاؤں نے احمررخ کو تمام حقیقت بتا دی. "کوئی بات نہیں! اس دفعہ میں تمھیں معاف کرتا ہوں! لیکن آیندہ ایسا نہیں ہونا چاھئیے! سمجھے!". یہ کہ کر احمررخ سو گیا اور شہزادے نے بھی شکر کیا کے جان خلاصی ہوئی. اگلی صبح جب شہزادہ اٹھا تو احمررخ دوبارہ جا چکا تھا. شہزادہ شدید بوریت کا شکار ہوا اور اس نے دوبارہ دریا کا رخ کیا اپنا جی بہلانے کیلئے. اس دفعہ اس نے تہیہہ کیا کہ وہ پانی کے اندر کچھ نہیں گرنے دے گا. وہ بس جھک کر پانی میں تیرتی مچھلیوں کو دیکھ رہا تھا کے اچانک اس کی ٹوپی سر سے پھسل کر شڑاپ دریا میں جا گری اور گرتے ہی سنہری ہو گئی. اس نے اپنی تیرتی ٹوپی کو نکالا اور جھونپڑی کے پیچھے چھپا دیا. رات کو احمررخ جب واپس آیا تو اس کو ساری روئیداد بن بتاۓ پتا لگ گئی. "دیکھو! میں تمھیں پھر معاف کرتا ہوں! لیکن دوبارہ ایسا نہیں ہونا چاہیے!". وہ یہ کہ کر پھر سو گیا. پوری رات شہزادے کو خواب میں وہ خوبصورت سنہری مچھلیاں نظر آتی رہیں اور صبح ہوتے ہی اس نے اپنے ارد گرد احمررخ کو نہ پا کر پھر دریا کا رخ کیا. دریا کے پانی کی خوبصورتی نے شہزادے کے دل کو پھر گرمایا اور وہ جھک کر دریا اندر دیکھنے لگا. اس نے پہلی دفعہ دریا کے پانی میں اپنا عکس دیکھا. وہ دریا کے پانی اوپر اور جھکا تو اس کے بالوں کی ایک لٹ دریا کے پائی کو چھو گئی اور چھوتے ہی اس کے تمام بال سنہری ہو گۓ . احمررخ کی واپسی سے پہلے شہزادے نے اپنے بالوں کو چھپانے کی کوشش کی لیکن احمر رخ کو پتا چل گیا. وہ مسکرایا اور بولا: "اب تم یہاں میرے ساتھ نہیں رہ سکتے! تم نے اپنے آپ کو اس پانی میں دیکھ لیا ہے! جاؤ! جو تمھیں نظر آیا ہے اس کی تعبیر حاصل کرو!".
احمررخ نے چھوٹے شہزادے کو تن تنہا ایک سنسان راستے پر روانہ کر دیا. شہزادہ اپنی تمام دولت' خاندان' حسب نسب' اور دوستوں کو کھو چکا تھا. اس کے پاس کچھ بھی نہ تھا. نہ روپا نہ پیسا اور نہ ہی کوئی ہنر. لیکن احمررخ نے اسے وہ چیز دی تھی جس کے بعد اسے کسی اور چیز کی کبھی ضرورت ہی نہ تھی: چمکتے ہوئے سنہری بال!
(رابرٹ بلائے کی کہانی "آئرن جون" سے ماخوذ ترجمہ از فیاض منہاس )
No comments:
Post a Comment