Sunday, July 16, 2023

On Love by Fayyaz Minhas (A translation)

--

It was before the nights of this world had received their darkness. Before even the stars knew how to twinkle. The newly formed moon stumbled awkwardly in its brightly lit dress. It was not even familiar with its duty of revolving around the Earth. The world had just emerged from the house of possibilities and was void of any life as we know it. Thus it was the very beginning of this system called the cosmos. Time itself had just been morphed.

There was an alchemist in the heavens at that time who could see the future of the world. He knew that God was in possession of a cure for everything but the angels were hiding the miracle from Adam. He set himself to get hold of the miracle cure and one day he did get hold of it. 

He then started collecting the ingridents required for producing it. He got brilliance from the stars, asked the moon for its grief (of separating from the Earth). Got darkness from the night. He acquired yearning from lightning, piety from a hooriah and Passion from Jesus, son of Mary. He collected Care-freeness from God Himself and Humility from angels.

He then mixed all these ingridents with the water of life And named the final product "love!"

He spread this substance over in whole of the universe And it is love that taught stars to move, flowers to blosson and life to thrive!

--

My humble translation of Iqbal's poem "Muhabbat" (Love) in Bang-e-Dara.

 http://www.youtube.com/watch?v=ATvGVLMdcC0



 جہاں کے جوہر مضمر کا گويا امتحاں تو ہے! 


The secrets of this world cannot hide from your eyes (Iqbal)

 "Don't Ask!" by Fayyaz Minhas

--

When my gaze questions her presence on my doorstep 

this late at night 

She gives me goosebumps as answers 

What's so special about her presence? 

Don't ask! 

When I dance with her, 

My quadriplegic soul

Never misses a beat or a step

What happens to my soul around her? 

Don't ask!

Sometimes I rise heartwards to meet her

Like a rose bush trying to escape it's muddy roots

Or a cloud flying high away from its watery origin 

Or the moon, running breathless without any air

Or the smoke taking to the skies, away from its fire

Who am I? Who is she? 

Earth? Water? Fire? Air? 

Don't ask!

Friday, June 9, 2023

Peeping Tom by Fayyaz Minhas (written May 16, 2021)

لیڈی گوڈئوا Lady Godiva آج سے قریب ایک ہزار برس پہلے یہاں سے گزری جہاں آج اس کا ایک مجسمہ اس کی برہنگی کی دلیل اور اس کی ہمت کی شہادت کے طور موجود ہے- تو بات کچھ یوں ہے کے والی شہر نے غریب کسانوں اور ان کے مال سے تجارتی نفع کمانے والوں پر آج کے حکمرانوں کی طرح ٹیکس لگایا- غیر کی کھیتی اور اس میں اگنے والی جنس پر نظر ہی تو سلطان' پرویز اور مجلس ملت کے رکن ہونے کی شرط ہے - زمانہ ضرور بدلہ ہو گا لیکن حاکم کی حاکمیت اسی طرح غربت اور کمزوری سے طاقت حاصل کرتی آئی ہے - ٹیکس اور اس سے پستی عوام کی حالت نے لیڈی گوڈئوا کے دل پر گہرا اثر کیا اور ایک شاہی خاندان کی چشم و چراغ ہونے سے پیدا ہونے والی ہمت نے انہیں حاکم وقت' جو کچھ روایات کے مطابق انکے شوہر نامدار بھی تھے' کے سامنے کلمہ حق ادا کرنے پر مجبور کیا- انہوں نے حاکم سے یہ سفارش کی کہ اس ٹیکس سے غربت کی چکی کی رفتار تیزہونے' اور اس کے پاٹوں کے بیچ عوام کے کچلے جانے کا قوی امکان ہے لہٰذا اس لگان سے معافی دے کر ثواب دارین حاصل کیا جاۓ - لیکن جہاں ایک جانب ثواب کی لذت اور دوسری جانب سونے کی چمک ہو' غلط فیصلہ کرنا بہت سہل ہوتا ہے - چنانچہ حاکم نے لیڈی گوڈئوا کی اس معصومانہ فرمائش کو نظرانداز کرنے کے بعد یہ کہا کہ اے مورکھ! تجھے نظام حکومت کا کیا علم؟ تو کیا جانے کہ غریب کے پسینے کی منی ہی تو امیر کی نسل کی افزائش کا سبب ہے - یہ لباس فاخرہ جو تیرے بدن کی زینت ہے ' اسی آمدن سے بنا گیا ہے - لگان کی معافی تو تب ہی ممکن ہے جب تم خود اس لباس سے اپنے آپ کو بری کرنے کیلئے تیار ہو - حاکم نے شائد یہ بات گوڈئوا کو سمجھانے  اور اسے اس ضد سے دور رکھنے کیلئے کی ہو لیکن گوڈئوا تو اس کو سچ سمجھ' کپڑے اتار' شہر کو نکل گئی کہ شائد حاکم اپنی زبان کا پاس رکھنے کیلئے ٹیکس معاف کر دے! کہتے ہیں کے ہر انسان کی زندگی میں ایک وقت آتا ہے جب حضرت خضر اسے سیدھا راستہ دکھاتے ہیں لیکن اس پر چلنا مشکل ہوتا ہے - اس راستے میں سب کچھ چھن جانے کے ڈر پر قابو پانا ہی ایک ولی کو ایک لالچی والی سے منفرد کرتا ہے - تو لیڈی گوڈئوا نے ایک پاک بی بی کی سنت کے مطابق حاکم وقت کے سامنے سچ بول کر اور اپنا سب کچھ چھوڑ کر اس راستے کا انتخاب کیا - وہ اپنے آپ کو اپنی زلفوں کی درازی میں چھپا کر محل سے نکل گئی - زلفیں جتنی بھی لمبی ہوں' شب دیجور میں تو شائد' لیکن دن کی میں روشنی میں لوگوں کی نظروں سے سب کچھ چھپانے سے قاصر ہی رہتی ہیں- لیکن شہر کے لوگ غریب سہی ' بے وضح نہ تھے - ان کو جب یہ معلوم ہوا کہ لیڈی گوڈئوا کی یہ حالت غریب کی داد رسی کی وجہ سےہوئی تو انہوں نے باہم عہد کیا کہ سب اپنے آپ کو گھروں میں بند کر لیں کہ کہیں لیڈی گوڈئوا کے برہنہ بدن پر انکی نظر نہ پڑے - ویسے بھی کہتے ہیں کے ایسی نوری مخلوق ہم زمینی باسیوں کو کہاں نظر آتی ہیں؟ لیکن انسان کی جبلت میں جس چیز سے منح کیا جاۓ وہ کام کرنے کی خواہش جنت گم گشتہ سے موجود ہے - اس کہانی میں بھی ایک برہنہ عورت کے وجود نے ایک کم ظرف بہ مسمم ٹام کو آبلے پھاڑ  کر لیڈی گوڈئوا  کی برہنگی سے لذت حاصل کرنے پر مجبور کر دیا - ٹام کی اس حرکت نے انگریزی زبان کے محاورے peeping tom کی بنیاد رکھی - خیر روایت یہ ہے کے ٹام کو اس گناہ کی سبب قہر خدا نے اندھا کر دیا اور آج شہر کے مرکز میں موجود یہ مجسمہ تو لیڈی گوڈئوا کیلئے ہے لیکن اس مجسمے سے کچھ دور ایک کھڑکی میں اندھا ٹام بھی اسی حالت گناہ میں بیٹھا ہے - مجھے نہیں معلوم کے اس واقعے سے  متاثر حاکم نے کیا واقعی ٹیکس معاف کیا یا نہیں ' یا شہر کے لوگوں کی غیرت نے خاموشی کی چادر سے نکل کر رسم شبیری ادا کی یا نہیں' لیکن زینب کی بے چادری کی مانند یہ قصہ بھی تاریخ کا حصّہ ہے  

آج میں نے دیکھا کہ لیڈی گوڈئوا کے مجسمے کے ساۓ میں کچھ لوگ جمح ہیں - ایک مظاہرہ جاری ہے جس کے منتظمین حمایتان حریت فلسطین ہیں - وہاں ہونے والی تقریر کا مجھے ایک لفظ سمجھ نہیں آیا- اسکی وجہ شاید یہ تھی کہ میں  peeping tom کی طرح مظاہرے میں شامل لوگوں اور انکو دیکھنے میں مگن لوگوں کو دیکھنے میں مصروف تھا جو برطانوی موسم گرما سے کئے وعدہ بے حجابی کو پورا کر رہے تھے- ارد گرد نظر دوڑائی تو لوگ قریب واقع دکانوں ' شراب خانوں اور رستورانوں میں زیادہ بے فکر دکھائی دیے - پھر جی میں یہ خیال اٹھا کہ شائد بے سروسامان اپنے گھروں سے نکلنے کو شائد یا فلسطینی سمجھ سکتے ہیں یا سنائی کے موسوی یا لیڈی گوڈئوا کا مجسمہ! وہاں کچھ اسرائیلی پرچم بردار بھی تھے اور فلسطینی بھی! اور میری نگاہیں ایک گندمی بالوں والی خوبصورت پولیس افسر پر مرکوز تھیں جس سے میرے خیالوں کے امن میں تھوڑا خلل برپا ہوا لیکن اس کا اصل مقصد اس نازک صورت حال کو قابو میں رکھنا تھا جو ان سیاسی خیالات اور اس تاریخی تقسیم کے حامیوں کے ایک جگہ اکھٹے ہونے سے بگڑ سکتی تھی- خیر نہ کچھ ہونا تھا نہ کچھ ہوا - لیکن میرے ذہن میں آج سے ایک ہزار برس بعد کا منظر ابھرا جس میں  لیڈی گوڈئوا کے مجسمے کے ساتھ ایک طرف جھلستی Anne Frank  اور دوسری طرف بمبار حملوں میں مرنے والے بے نام فلسطینی بچے کا مجسمہ تھا اور میں تمام دنیا کی مانند اپنی کھڑکی سے اندھا ٹام بن کر یہ سب دیکھ رہا تھا- شائد اس سب کے بعد ہم سب انسانیت کا لباس پہننا سیکھ لیں

Friday, February 24, 2023

Dance

  نی جندے نچ نی جندے نچ نی جندے

 نچ نی جندے نچ نی جندے نچ نی جندے


جد تک سیت وجودے تیرے ہے ساہواں دا مچ


نچ نی جندے نچ نی جندے نچ نی جندے نچ


نچ نی جندے نچ نی جندے نچ نی جندے نچ


می رقصم می رقصم بولا ہر دم مونہوں بول


ایسی اڈی مار زمینے مڑھکے تھاں رت ڈؤل


پانی مٹی اگ ہوا نوں اک پیالے گھول


اکو ڈیکے پی جا چارے پنجواں کھلے سچ


نچ نی جندے نچ نی جندے نچ نی جندے نچ




دس نی جندے دنیا نوں توں ایہہ انملا کم


کیوں سولی منصور نے چمی شمس لتھیا چم 


کیوں موہرا سقراط نے پیتا کیوں سی نچیا بلھا


کیوں سی بھلی ہیر سلیٹی ویہڑا چوکا چُلہا


سچا تیرا سچ پچھانے کیہہ جانے جو کھچ


نچ نی جندے نچ نی جندے نچ نی جندے نچ




دس نی جندے کہیڑی گلوں سرمد سیس کٹایا


تخت ہزارہ چھڈ رانجھے نیں کناں نوں پڑوایا


شاہ حسین دا کیہڑی گلوں بنیا مادھو لال


چھڈ دولتاں ادھم کاس نوں ہویا سی کنگال


عشقے دی سردائی پی کے بول فقیرا سچ


نچ نی جندے نچ نی جندے نچ نی جندے نچ




روز الست و کیتے سن جو کھلن قول قرار


لالچ ، لوبھاں ،حرص، ہواواں اپنے اندروں مار


میں میں توں کر لے توبہ توں توں ورد پکار


توں دے ایس سمندر دے وچ قطرہ بن کے رچ


نچ نی جندے نچ نی جندے نچ نی جندے نچ




ایس مقامے مرنوں پہلاں مر جاناں توں آپے


جمیاں دے سب چاء مک جانے موئیاں یار سیاپے


آپے آؤنا آپے جانا کھل جانی ایہہ گل


کت کت ڈھیر لگا دؤو تکلا نکل گیا جے ول


لاہ ناں پردے یار ندیما اس دنیا توں بچ


نچ نی جندے نچ نی جندے نچ نی جندے نچ




غلام حسین ندیم



Wednesday, September 4, 2019

ہک گل پچھاں

ہک گل پچھاں' مارو گے تے نہیں؟
ایہہ تساں مارنا کس سکھایا جے؟ 

میرے دیس دے واسیوں! ہک گل پچھاں؟
"و بالمساکین إحسانا" کتھے جا بُھلایا جے؟

میرے دیس دے سپاہیوں! ہک گل پچھاں؟
تہاڈے ظلم دا پرچہ اس کتھے جا کٹایا جے؟

میرے دیس دے منصفوں! ہک گل پچھاں؟
تساں تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ کتھے جا پھیلایا جے؟

میری سرکار دے افسروں! ہک گل پچھاں؟
اپنڑی گردن اِڈا سریا کتھے جا پوایا جے؟

میرے دیس دے سیاسیوں! ہک گل پچھاں؟
ملک الله' حکم الله کتھے جا دفنایا جے؟

میرے دیس دی مقدس گائیوں! ہک گل پچھاں؟
 ایہہ اپنڑے آپ نوں خدا کتھے جا بنایا جے؟

میرے دیس دے لکھاریوں! ہک گل پچھاں؟
میری جِب وانگوں سچ کتھے جا دکھایا جے؟

میرے حسین دے ذاکروں! ہک گل پچھاں؟
اِس غریب دا ماتم  کتھے جا کرایا جے؟

(فیاض)

Sunday, April 14, 2019

Books are people too (ep. 4): Payam-e-Mashriq


This is another interview in the series "Books are people too!". This time, our guest is Huzoor Ahmed Saleem's Urdu translation of the Persian poetry book "Payam-e-Mashriq" (Message of the East) by Iqbal.


Who should I take as a guide in my life?

شعاع مہر او قلزم شگاف است
بہ ماہی دیدہ رہ ایں دہد عشق

شعاع مہر ہے دریا میں گویا
کہ ماہی  کو ہے چشم رہ بیں عشق

What is the role of mankind in this universe?

ہے ساز نغمہ ہائے عشق انساں
کرے افشاۓ راز اور خود ہے پنہاں
بنے وہ جہاں کو ' یہ سنوارے
ہے انساں کیا شریک کار یزداں؟

How can I improve my life?

دمادم نقش ہاے تازہ ریزد
بیک صورت  قرار زندگی نیست
اگر امروز تو تصویر دوش است
بخاک تو شرار زندگی نیست

بناتی ہے بہر لحظہ نۓ نقش
نہیں دائم قرار زندگانی
ہے تیرا آج اگر تصویر کل کی
نہیں تجھ میں شرار زندگانی

What is the objective of life?

مگو از مدعاۓ زندگانی
ترا بر شیوہ ہاۓ او نگہ نیست
من از ذوق سفر آں گونہ مستم
کہ منزل پیش من جز سنگ رہ نیست

بیاں کرتا ہے کیا تو مقصد زیست
نظر ایسی نہیں ہے تجھ تو حاصل
ہوں میں سرشار یوں ذوق سفر سے
کہ سنگ رہگزر ہے مجھ کو منزل

Aren't we bounded by fate?


نہ ہو پا بستہء زنجیر تقدیر
ہے جولاں گاہ زیرِ چرخِ گرداں
نہ آۓ گر یقیں تو کر کے ہمت
جھٹک زنجیر پا' پھر دیکھ میداں

How can we humans live in peace?

نہ افغانیم و نے ترک و تتاریم
چمن زادیم و از یک شا خساریم
تمیز تانگ و بو بر ما حرام است
کہ م پروردہ یک نو بہاریم

نہ افغاں ہیں ' نہ ہم ہیں ترک و تاتار
سبھی نکلے ہیں اک شاخ چمن سے
تمیز رنگ و بو ہم کو ہیں ممنوع
کہ پروردہ ہیں سب اک فصل گل کے

Why were we born?

ازل کی وسعتوں میں پرفشاں تھا
نہ تھا پابند میں اب اور گل کا
گراں قیمت ہوں میں تیری نظر میں
تبھی بازار ہستی میں تو لایا

Who are you?


If the world was created by Him, what did humans add?



Sometimes, life feels difficult. How does one deal with that?


پوچھا یہ ایک دن ایک صاحب دل سے' ہے کیا حیات؟
جتنی شراب تلخ ہو بہتر" دیا جواب"

What inspires you to explore the world and knowledge?
جو ملک بھی ہے میرے خدا کا' وہ ہے مرا 
ہر ملک ملک ماست کہ ملک خداۓ ماست

What is the worse thing a human can do to himself?

اپنی کج بینی سے آدم ہوا آدم کا غلام 
اپنے جوہر کو کیا اس نے نثار کے و جم 
گھٹ گیا کتے سے بھی خوۓ غلامی کے سبب 
سامنے کتے کے کتے نے کیا کب سر خم