لیڈی گوڈئوا Lady Godiva آج سے قریب ایک ہزار برس پہلے یہاں سے گزری جہاں آج اس کا ایک مجسمہ اس کی برہنگی کی دلیل اور اس کی ہمت کی شہادت کے طور موجود ہے- تو بات کچھ یوں ہے کے والی شہر نے غریب کسانوں اور ان کے مال سے تجارتی نفع کمانے والوں پر آج کے حکمرانوں کی طرح ٹیکس لگایا- غیر کی کھیتی اور اس میں اگنے والی جنس پر نظر ہی تو سلطان' پرویز اور مجلس ملت کے رکن ہونے کی شرط ہے - زمانہ ضرور بدلہ ہو گا لیکن حاکم کی حاکمیت اسی طرح غربت اور کمزوری سے طاقت حاصل کرتی آئی ہے - ٹیکس اور اس سے پستی عوام کی حالت نے لیڈی گوڈئوا کے دل پر گہرا اثر کیا اور ایک شاہی خاندان کی چشم و چراغ ہونے سے پیدا ہونے والی ہمت نے انہیں حاکم وقت' جو کچھ روایات کے مطابق انکے شوہر نامدار بھی تھے' کے سامنے کلمہ حق ادا کرنے پر مجبور کیا- انہوں نے حاکم سے یہ سفارش کی کہ اس ٹیکس سے غربت کی چکی کی رفتار تیزہونے' اور اس کے پاٹوں کے بیچ عوام کے کچلے جانے کا قوی امکان ہے لہٰذا اس لگان سے معافی دے کر ثواب دارین حاصل کیا جاۓ - لیکن جہاں ایک جانب ثواب کی لذت اور دوسری جانب سونے کی چمک ہو' غلط فیصلہ کرنا بہت سہل ہوتا ہے - چنانچہ حاکم نے لیڈی گوڈئوا کی اس معصومانہ فرمائش کو نظرانداز کرنے کے بعد یہ کہا کہ اے مورکھ! تجھے نظام حکومت کا کیا علم؟ تو کیا جانے کہ غریب کے پسینے کی منی ہی تو امیر کی نسل کی افزائش کا سبب ہے - یہ لباس فاخرہ جو تیرے بدن کی زینت ہے ' اسی آمدن سے بنا گیا ہے - لگان کی معافی تو تب ہی ممکن ہے جب تم خود اس لباس سے اپنے آپ کو بری کرنے کیلئے تیار ہو - حاکم نے شائد یہ بات گوڈئوا کو سمجھانے اور اسے اس ضد سے دور رکھنے کیلئے کی ہو لیکن گوڈئوا تو اس کو سچ سمجھ' کپڑے اتار' شہر کو نکل گئی کہ شائد حاکم اپنی زبان کا پاس رکھنے کیلئے ٹیکس معاف کر دے! کہتے ہیں کے ہر انسان کی زندگی میں ایک وقت آتا ہے جب حضرت خضر اسے سیدھا راستہ دکھاتے ہیں لیکن اس پر چلنا مشکل ہوتا ہے - اس راستے میں سب کچھ چھن جانے کے ڈر پر قابو پانا ہی ایک ولی کو ایک لالچی والی سے منفرد کرتا ہے - تو لیڈی گوڈئوا نے ایک پاک بی بی کی سنت کے مطابق حاکم وقت کے سامنے سچ بول کر اور اپنا سب کچھ چھوڑ کر اس راستے کا انتخاب کیا - وہ اپنے آپ کو اپنی زلفوں کی درازی میں چھپا کر محل سے نکل گئی - زلفیں جتنی بھی لمبی ہوں' شب دیجور میں تو شائد' لیکن دن کی میں روشنی میں لوگوں کی نظروں سے سب کچھ چھپانے سے قاصر ہی رہتی ہیں- لیکن شہر کے لوگ غریب سہی ' بے وضح نہ تھے - ان کو جب یہ معلوم ہوا کہ لیڈی گوڈئوا کی یہ حالت غریب کی داد رسی کی وجہ سےہوئی تو انہوں نے باہم عہد کیا کہ سب اپنے آپ کو گھروں میں بند کر لیں کہ کہیں لیڈی گوڈئوا کے برہنہ بدن پر انکی نظر نہ پڑے - ویسے بھی کہتے ہیں کے ایسی نوری مخلوق ہم زمینی باسیوں کو کہاں نظر آتی ہیں؟ لیکن انسان کی جبلت میں جس چیز سے منح کیا جاۓ وہ کام کرنے کی خواہش جنت گم گشتہ سے موجود ہے - اس کہانی میں بھی ایک برہنہ عورت کے وجود نے ایک کم ظرف بہ مسمم ٹام کو آبلے پھاڑ کر لیڈی گوڈئوا کی برہنگی سے لذت حاصل کرنے پر مجبور کر دیا - ٹام کی اس حرکت نے انگریزی زبان کے محاورے peeping tom کی بنیاد رکھی - خیر روایت یہ ہے کے ٹام کو اس گناہ کی سبب قہر خدا نے اندھا کر دیا اور آج شہر کے مرکز میں موجود یہ مجسمہ تو لیڈی گوڈئوا کیلئے ہے لیکن اس مجسمے سے کچھ دور ایک کھڑکی میں اندھا ٹام بھی اسی حالت گناہ میں بیٹھا ہے - مجھے نہیں معلوم کے اس واقعے سے متاثر حاکم نے کیا واقعی ٹیکس معاف کیا یا نہیں ' یا شہر کے لوگوں کی غیرت نے خاموشی کی چادر سے نکل کر رسم شبیری ادا کی یا نہیں' لیکن زینب کی بے چادری کی مانند یہ قصہ بھی تاریخ کا حصّہ ہے
آج میں نے دیکھا کہ لیڈی گوڈئوا کے مجسمے کے ساۓ میں کچھ لوگ جمح ہیں - ایک مظاہرہ جاری ہے جس کے منتظمین حمایتان حریت فلسطین ہیں - وہاں ہونے والی تقریر کا مجھے ایک لفظ سمجھ نہیں آیا- اسکی وجہ شاید یہ تھی کہ میں peeping tom کی طرح مظاہرے میں شامل لوگوں اور انکو دیکھنے میں مگن لوگوں کو دیکھنے میں مصروف تھا جو برطانوی موسم گرما سے کئے وعدہ بے حجابی کو پورا کر رہے تھے- ارد گرد نظر دوڑائی تو لوگ قریب واقع دکانوں ' شراب خانوں اور رستورانوں میں زیادہ بے فکر دکھائی دیے - پھر جی میں یہ خیال اٹھا کہ شائد بے سروسامان اپنے گھروں سے نکلنے کو شائد یا فلسطینی سمجھ سکتے ہیں یا سنائی کے موسوی یا لیڈی گوڈئوا کا مجسمہ! وہاں کچھ اسرائیلی پرچم بردار بھی تھے اور فلسطینی بھی! اور میری نگاہیں ایک گندمی بالوں والی خوبصورت پولیس افسر پر مرکوز تھیں جس سے میرے خیالوں کے امن میں تھوڑا خلل برپا ہوا لیکن اس کا اصل مقصد اس نازک صورت حال کو قابو میں رکھنا تھا جو ان سیاسی خیالات اور اس تاریخی تقسیم کے حامیوں کے ایک جگہ اکھٹے ہونے سے بگڑ سکتی تھی- خیر نہ کچھ ہونا تھا نہ کچھ ہوا - لیکن میرے ذہن میں آج سے ایک ہزار برس بعد کا منظر ابھرا جس میں لیڈی گوڈئوا کے مجسمے کے ساتھ ایک طرف جھلستی Anne Frank اور دوسری طرف بمبار حملوں میں مرنے والے بے نام فلسطینی بچے کا مجسمہ تھا اور میں تمام دنیا کی مانند اپنی کھڑکی سے اندھا ٹام بن کر یہ سب دیکھ رہا تھا- شائد اس سب کے بعد ہم سب انسانیت کا لباس پہننا سیکھ لیں
No comments:
Post a Comment