Sunday, August 17, 2014

جنوں

وقت' دن' رات' سورج' ہوا' موسم' غرض یہ کہ کل کائنات جنوں سے لبریز ہے - سورج کی حدت' موسم کی شدت' زمانے کی بے اعتناعی اور وقت کی بے ثباتی سب اس امر کی نشاندہی کرتے ہیں کہ  ان تمام  کو ایک پوشیدہ قوت جنوں خیز اعمال پر ابھارتی ہے - لیکن میری پریشانی تب شروع ہوتی ہے جب یہ تمام عوامل ایک قاعدے و قانون کے تابع بھی نظر آتے ہیں - ان تمام رویوں کے پیچھے ایک حساب مقرر بھی قائم دائم ہے جو سورج کو مشرق سے نکالتا اور مغرب میں غروب کرتا آیا ہے - یہ حساب مقرر باقی مخلوقات کی طرح اشرف المخلوقت پر بھی لاگو ہے اور اس کے کناروں سے نکلنے کی ہم کوشش کے سوا تو کچھ کر سکنے ہی کے نہیں - اصل جنوں صرف خالق کائنات کے حصے میں آیا ہے جو قادر مطلق ہے ' پالنے والا ہے ' غنی ہے اور غنی کر دینے والا ہے - الغرض جنوں کی انتہا تو خدا ہے - انسان بھی ' اپنی فساد کرنے والی فطرت سے مجبور' ایک نکتے میں بات کو نہیں مکاتا بلکہ ایسے ایسے کام کرتا ہے کہ جن سے عقل دنگ اور جنوں محض محظوظ ہوتا ہے - میرے خیال میں خدا کے اس وصف کا پرتو انسان کو ایسے کام کرنے پر مجبور کرتا ہے جن کی بابت یہ کہا گیا ہے  :

تو شب آفریدی' چراغ آفریدم
سفال آفریدی' ایاغ آفریدم
بیابان و کهسار و راغ آفریدی
خیابان و گلزار و باغ آفریدم
من آنم که از سنگ آئینه سازم
من آنم که از زهر نوشینه سازم
(اقبال)

ایسے جنوں کو جو انسان کو زہر کو بطور تریاق استعمال کرنے کی ہمت دے ' اگر آپ عمل و حرکت میں دیکھنا چاہتے ہیں تو سفر شرط ہے - انسانی تاریخ کا پہلا سفر انسان کو ایک عورت کے پاعث کرنا پڑا - جنت میں سے نکلوانے کا بدلہ عورت نے تصویر کائنات میں رنگ بھر کر دیا - اس سفر کے اختمام پر روح ارضی نے آدم کا استقبال کیا -  جس طرح اس پہلے سفر کے مسافر تمام بنی نوع انسان کے جد ہیں ' یہ سفر بھی باقی تمام سفروں کا نکتہ آغاز ہے - ایسے کچھ سفر انسان کو اپنے اندر کی دنیا کی طرف لے گئے اور کچھ نظام شمسی سے باھر.  ایک ایسے ہی سفر کے دوران میں نے جنوں کو اپنے سامنے یا اپنی شہ رگ سے بھی قریب تر پا کر اس سے یہ سوال کیا کہ 'تو کون ہے؟' - لیکن جواب میں صرف ایک بازگشت سنائی دی  'تو کون ہے؟'  'تو کون ہے؟'  'تو کون ہے؟' ...  یہ بازگشت آج تک میرے کانوں میں سنسناتی ہے کیوں کہ میرے پاس اس کے جواب میں صرف خاموشی ہے - میں اور میری ذات ہمسفر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک عجیب و غریب رشتے میں بندھے ہیں - وہ رشتہ ہے اجنبیت کا - سنا ہے کہ اس سوال کا جواب ملتا ہے لیکن اس وقت جب ذات انسان کے وجود سے پیچھے رہ جاۓ - بقول غالب'

خدا کے واسطے ' داد اس جنوں شوق کی دینا
کہ اس کے در پہ پہنچے ہیں نامہ بر سے ہم ' آگے

یہ سوال آج مجھے پھر ستا رہا ہے - پہلی مرتبہ جب یہ خیال آیا تو میں اپنے پاؤں فورٹ کولینز کے آبی ذخیرے با لمعروف ہورس ٹوتھ ریزروا ئیر میں ڈالے بیٹھا ایک موٹر کشتی کے گزرنے سے پیدا ہونے والی لہروں کو دیکھ رہا تھا . لہر یوں کشتی سے دور بھاگتی کہ جیسے اس کو اپنے پانیوں پر کسی اور کا وجود سخت ناپسند ہو.جب لہروں کو کہیں جہاں میں امان نہ ملی تو وہ آ کر ان چٹانوں میں پناہ لینے کی کوشش کرنے لگیں جن پر  میں بیٹھا تھا. لیکن شائد چٹانیں پر غرور تھیں - کیونکہ لہریں سر پٹخ کر اپنے خون سے پانی کو صرف گدلا ہی کر پا رہی تھیں. لہر آتی ' ٹکراتی اور واپس چلی جاتی. اور یوں انہیں سفر یا حضر دونوں میں سکوں نہ ملتا. جب لہروں کو اپنی کوشش کا خاطر خواہ نتیجہ نکلتا نہ دکھائی دیا تو وہ  میری طرح خاموش ہو گیئں - لیکن کچھ ہی دیر بعد وہ اپنی فطرت کے تیئں دوبارہ اسی کشمکش میں مگن ہو جاییں گی - لہریں بھی تو آخر جنوں کی مانند ہیں اور شائد  مجھ سے بھی کچھ زیادہ مختلف نہیں - ابھی  میں یہ سوچ ہی رہا تھا کے ایک لہر آئی اور اپنے بند سے نکل ' مجھے بھگو کر واپس پلٹ گئی - شائد اسے میرا یہ خیال راس نہ آیا ہو - جیسے وہ  مجھے یہ کہنے آئی ہو کے تم تو پانیوں سے باہر بے خطر بیٹھے ہو' صرف پاؤں ڈبوۓ یہ سمجھتے ہو کہ ہمارا تمام درد جانتے ہو - آؤ ' میرے ساتھ پانیوں میں اترو - خود دیکھو کہ اس جنوں کا اصل کیا ہے. لیکن اتنی ہمّت مجھ میں کہاں کہ میں کولوراڈو کے دور دراز برفیلے چشموں سے اکھٹے کیے ان پانیوں میں ایک مضبوط گھڑے کے بغیراتر جاتا - سو  میں پاؤں پانیوں سے نکال ' تھوڑا اور بلندی پر بیٹھ گیا اور سوچنے لگا کہ ذات کیا ہے. ذات زندگی کا عضو ہے - ذات خود جسم ہے اور اس جسم پر ہم نے اپنی سوچوں کا لباس پہنایا ہے- جارج برنارڈ شا کے مطابق یہ اوڑھنا کبھی کبھی صرف اس وجہ سے ہوتا ہے کہ ہم انسان ہر اس چیز سے  شرمندہ ہوتے  ہیں جو ہمارے لئے حقیقت کا درجہ رکھتی ہے بشمول  ہماری زبان و لہجہ' ہمارے خیالات ' تجربات ' خاندان' آمدن اور برہنہ جسموں کے - کبھی سوچ کے لبادے اتنے تنگ ہوتے ہیں کہ جسم کی تمام بے ڈھنگی نظر آنا شروع ہو جاتی ہے - یہی بے ڈھنگی گورے کو کالے اور اونچی ذات کو نیچی ذات سے بلند قرار دیتی ہے -یہی سوچ کی تنگی انسان کو نہ صرف  دوسروں کو اپنا غلام بنانے کی شہ دیتی ہے بلکہ غلاموں کو بھی غلامی میں خوش رکھتی ہے - فرقہ ورانہ' بین المذہب' بین النسل اور لسانی عداوتوں میں بھی ایسی ہی سوچ کارفرما ہوتی ہے -  کبھی یہ سوچ  کے پراہن اتنے باریک ہوتے ہیں کہ ان کے پار سب کو سب کچھ دکھتا ہے- ایسے موقعوں پر نظریں جھکانے کا حکم ہے - لیکن اٹھ ہی جاتی ہے نظر کیا کیجئے - خیر بات سوچ کے لبادوں کی تھی لیکن نظر جب اپنے ہم نشینوں پر پڑی تو پڑی ہی رہی کہ وہ سوچ اور سماج دونوں کے لبادوں سے آزاد ہی تھے - شاید یہ قدرت کو انسانی سوچ کا لبادہ پہنانے کا ہی نتیجہ ہے کہ سامنے موجود اس بند کو ہورس ٹوتھ ریزروا ئیر کہتے ہیں کہ اس ذخیرے سے متصل بڑے پہاڑ کی چوٹی گھوڑے کے اگلے دو دانتوں جیسی دکھتی ہے - میں یہی سوچ رہا تھا کہ اتنے میں پانی کی ایک اور بڑی لہر مجھے اپنی موجودگی کا پتا دے گئی - سورج بھی دوبارہ بادلوں کی اوٹ سے نکل آیا اور پانیوں کا رنگ کچھ سبز' سرمئی اور پیلا نظر آنے لگا - جیسے کسی دلہن نے مہندی والے دن آنکھوں میں کاجل لگایا ہو - پانی سے سورج کی کرنیں جو ٹکراتیں تو پانی خوشی سے یوں چمکنے لگتا کہ واقعی آج اس کی مہندی ہو - سورج یہ دیکھ کر شرما گیا اور دوبارہ پردہ ابر میں چھپ گیا- لیکن جوبن پر آئی ایک جوان دوشیزہ کے حسن کی طرح سورج کو بادل کب چھپا سکے ہیں - سورج  ویسے بھی جنوں خیز ہے ' تھوڑی ہی دیر میں سب کچھ بھول کر دوبارہ نکل آے گا -
 سہ پہر ہو چکی تھی اور میرے پاس کھانے پینے کا زخیرہ قریب قریب ختم ہو چلا تھا - ذخیرے کا خیال آتے ہی  میرے ذہن میں وہ پرندے آ جاتے ہیں جو  میرے  بچپن کے دنوں میرے آبائی گھر کے صحن میں خشک  ہونے کیلئے ڈالی گندم سے اپنا حصہ وصول کرنے آ جاتے تھے - ان پرندوں  کو شیشے کی چمک کی مدد سے گیہوں سے دور بھگانے کی ذمہ داری میرے سر آتی- یہ کام مجھے بڑے مزے کا لگتا کیونکہ سورج کی منعکس روشنی کی پرندے بلکل تاب نہ لا سکتے اور مجھے یہ 'قوت' کسی سپر ہیرو  کی ایک خصوصیت لگتی جس پر میں  خود کو قادر سمجھتا  تھا - اب جب میں اس بارے میں سوچتا ہوں تو مجھے اپنی ان حرکتوں پر ندامت ہوتی ہے کیونکہ ان پرندوں کو ہم انسانوں کے برعکس  سرمایا داری کا  کوئی جنوں نہیں تھا - ایک پرندہ دو چار دانے چگ کر چلا جاتا اور دوبارہ نظر نہ آتا - جیسے اسے یقین ہو کے اسے اس کا اگلا کھانا کہیں اور سے لازماً ملے گا- اسی رزق  سے سیر وہ پرندہ خراج کے گدا بادشاہوں سے کہیں بلند اور بغیر کوتاہی کے پرواز کرتا. کاش ایسا یقین انسان کو بھی میسّر ہوتا - لیکن انسان نے تو دریاؤں کا راستہ اپنے زور بازو سے روک کر بڑے بڑے ذخیرے بناۓ ہیں -  میرے سامنے موجود  پانی کا ذخیرہ فورٹ کولنز شہر اور اسکے نواحی علاقوں کو آبپاشی اور پینے کا پانی  فراہم کرتا ہے - اس پانی اور اس سے اگنے والے  گندم اور جو کے استعمال سے فورٹ کولنز امریکا کی بہترین شراب کشید کرتا ہے جو خمارآغوش مے کشاں کو دو آتشہ کر دیتی ہے - خیر بات کہاں سے چلی اور کہاں چلی - میرا جی تو چاہا کہ میں لہر کی دی دعوت پر سنجیدگی سے غور کروں لیکن میرے پاس پینے کا پانی کم اور وقت ختم ہو  چلا تھا - سو لہر کا شکریہ ادا کیا اور واپسی کی ٹھانی - لیکن سوال جوں کا توں ہے...  'تو کون ہے؟' 

No comments:

Post a Comment