پورا دن اور آدھا میں
آنکھ کھلی تو
سلوٹ سلوٹ بستر سے
خود کو چن چن کے
کپڑوں کی گٹھڑی میں باندھا
پیروں کی بیساکھی لی اور باہر نکلے
دفتر کے دروازے پر
اک کاغذ کالا کرنے کے سکے لینے کو دفتر پہنچے
علم کی ردّی آدھی بیچی
آدھی بانٹ کے لوگوں پر احسان دھرا
اور اپنا آپ اٹھا کرنکلے
شام ہوئی تھی
قہوہ خانے میں پہنچے تو
کچھ زیادہ چھوٹے سر والے بحث رہے تھے
آدمی آج ادھورا کیوں ہے
ان پر اپنے پورے سر کا رعب جمایا
چبا چبا کے لفظ تھوکتے رات اتاری
محفل جب برخاست ہوئی تو
اگلے دن کے بارے سوچا
اگالدان کو الٹا پلٹا
لفظ اٹھاۓ
جھاڑ پونچھ کے پھر سے نگلے
ٹھوکر ٹھوکر رستہ چلتے گھر تک آیے
بوتل کھولی
اپنے تن کی باڑ پھلانگی
تیرے نام اک نظم لکھی تو
ہر مصرعے میں اپنی ذات کے ٹکڑے باندھے
تیرے ہجر کی چادر میں ہمیں اپنے ٹکڑے چنتے دیکھتا چاند کبھی کا ڈوب گیا ......
No comments:
Post a Comment