فطرت کو خرد کے روبرو کر
تسخیر مقام ِ رنگ بو کر
بے ذوق نہیں اگرچہ فطرت
جو اس سے نہ ہو سکا وہ تو کر
تسخیر مقام ِ رنگ بو کر
بے ذوق نہیں اگرچہ فطرت
جو اس سے نہ ہو سکا وہ تو کر
یہ کائنات ابھی نا تمام ہے شائد
کہ آرہی ہے دمادم صدائے کن فیکون
کہ آرہی ہے دمادم صدائے کن فیکون
خون رگ معمار کی گرمی سے ہے تعمیر
میخانہ حافظ ہو کہ بت خانہ بہزاد
بے محنت پیہم کوئی جوہر نہیں کھلتا
روشن شرر تیشہ سے ہے خانہ فرہاد
رنگ ہو یا خشت و سنگ ، چنگ ہو یا حرف و صوت
معجزہ فن کی ہے خون جگر سے نمود
نقش ہیں سب ناتمام خونِ جگر کے بغیر
نغمہ ہے سودائے خام خونِ جگر کے بغیر